Nisha

Add To collaction

3. تم میرے ہو

کالج اور اکیڈمی میں خاصا خشک مزاج مشہور تھا۔ خواتین سے غیر ضروری بات کرنا اسے پسند نہیں تھا اور نہ ہی وہ جلد بے تکلف ہونے والوں میں سے تھا۔ سو اس کے حلقہ احباب میں لڑکیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس کے باوجود وہ اجنبی نمبر پر کسی سے بھی بات کرتے ہوئے خاصا محتاط ہو جاتا تھا کہ شاید فون کے دوسرے طرف کوئی اس کے جاننے والوں میں سے نہ نکل آئے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ رمشا سے بات کرتے ہوئے بھی احتیاط برتتا تھا۔
”اچھا‘تو جناب کے لالہ جان محترمہ ڈاکٹر حوریہ کے انتظار میں عمریا بتا رہے تھے۔“ رمشا کا انداز ناقابل فہم قسم کا تھا۔ بظاہر وہ بڑی خوش اخلاقی برت رہی تھی۔ تاہم لہجہ خاصا سلگتا ہوا تھا۔ عبد ایک دفعہ پھر سے ٹھٹھکا۔
”تمہیں کس نے بتایا؟“
”جو ہماری نظر میں اور دل میں رہتے ہیں‘ان کے بارے میں ہر خبر رکھنا پڑتی ہے۔


یاد رہے‘ہماری نظر میں صرف تم ہو۔“ اس کا انداز صاف جتانے والا تھا۔
”ڈاکٹر حوریہ کے بارے میں تم کیسے جانتی ہو؟“
”میں تو عناس جرار‘مونسہ‘مونا اور مینا کے بارے میں بھی جانتی ہوں۔ تم اپنی ماما‘خالہ اور لالہ کے بے انتہا لاڈلے ہو‘بلکہ لالہ کی جان تم میں ہی ہے۔ میں تو یہ تک جانتی ہوں اور بھی جو جو پوچھنا چاہتے ہو‘پوچھ لو۔
“ وہ خاصی فراغ دلی سے کہہ رہی تھی۔
”مجھے تم سے کچھ نہیں پوچھنا۔“ عبد چڑ کر بولا۔
”تو اب تک کیا کر رہے تھے؟“ وہ اسے اور بھی چڑانے لگی۔
”بکواس کر رہا تھا۔“
”بہت اچھی بکواس کرتے ہو۔“ دھیمے سے لہجے میں بلا کی کھنک تھی۔
”میں جانتا ہوں۔“
”اور کیا جانتے ہو؟“ وہ بات سے بات نکال رہی تھی۔ اسی لئے عبد ایک دم چپ سا ہو گیا۔
”مجھے فون کیوں کرتی ہو؟“ بہت دیر بعد اس نے تحمل سے پوچھا۔
”اچھے لگتے ہو۔“
”اچھا لگنے سے کیا ہوتا ہے۔“
”محبت۔“ وہ برجستہ بولی۔
”اور محبت کیا ہوتی ہے؟“
”جب کوئی دل سے بہت قریب محسوس ہونے لگتا ہے۔“
”دیکھیں مس! مجھے یہ دل اور محبت کے قصے اٹریکٹ نہیں کرتے۔ دل کا کام صرف خون پمپ کرنا ہے۔ سو اسے یہی کام کرنے دیجئے۔
فضول کام اس کے ذمے مت لگایئے۔ اپنا نقصان کر بیٹھیں گی۔“ وہ روکھے سے لہجے میں بولتا چلا گیا۔
”ہمارا اتنا خیال رکھنے کا شکریہ۔“ وہ گویا کھلکھلا اٹھی تھی۔ عبد اس کی ہنسی کی جلترنگ سن کر چپ ہو گیا۔
”بہت ڈھیٹ ہو تم۔“ عبد بھنایا۔
”وہ تو میں ہوں۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔“
”تم آخر چاہتی کیا ہو؟“ وہ زچ ہو گیا۔
”صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم میری چاہت میں مبتلا ہوجاؤ۔ 

3. تم میرے ہو


”یہ ممکن نہیں۔“ وہ صفائی سے بولا۔
”کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔“
”بڑی خوش فہمی ہے۔“
”نہیں‘خوش فہمی کیوں؟ وقت ثابت کرے گا۔ تم میری محبت کو ایک دن تسلیم کر لو گے۔“
”اب اجازت ہو گی کیا؟“ اس نے بڑی نرمی سے اجازت چاہی تھی۔ اگر فون ایسے ہی منقطع کر دیتا۔ تو وہ دوبارہ کال کر دیتی اور اگر فون آف کر دیتا‘پھر تو اور بھی قیامت آ جانی تھی۔
وہ لابی میں رکھے فون پر اس کی جان کھاتی رہتی۔ اگر وہ فون سننے نہ جاتا تو… بھی سب کی نظروں میں آ جاتا۔
”نہیں۔“ ترنت جواب آیا۔
”کیوں؟“ وہ پھر سے ضبط کئے پوچھ رہا تھا۔
”میری مرضی۔“
”میں ابھی کچھ مصروف ہوں۔“ عبد نے گویا دانت پیسے۔
”عبد!“ اس کی آواز میں واضح تحکم تھا۔ ”تم مجھ سے بات کرو گے۔“
”ہونہہ‘نہیں کروں گا۔
“ عبد نے سلگتے ہوئے فون آف کر دیا تھا۔ اس کی کنپٹیاں تک سلگ رہی تھیں اور وہ خود سے عہد کر رہا تھا کہ آج کے بعد رمشا اکرام سے کبھی بات نہیں کرے گا۔ مگر اس کے یہ عہد خود بخود بودے ثابت ہونے لگتے تھے جب وہ ایک دفعہ پھر سے تلملاتے ہوئے اس کی فون کال نہ صرف اٹینڈ کر لیتا تھا بلکہ اسے مجبوراً بات بھی کرنا پڑتی۔ ورنہ آپریٹر ہارون تھوڑی دیر بعد اس کے روم میں جھانک کر اطلاع دینے لگتا تھا۔
”سر! آپ کا فون ہے۔“ اور اسی بات سے بچنے کیلئے وہ موبائل کا نمبر بدلنے کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ وہ جو اس کے گھر کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جانتی تھی‘نیا نمبر ڈھونڈنا اس کے لئے کچھ مشکل امر نہ تھا۔  

3. تم میرے ہو

آج پھر ان کا میچ تھا۔ اس دن عبد کی ٹیم بہت محنت کے بعد میدان میں اتری تھی۔ آج بھی شائقین نے پوسٹرز تھام رکھے تھے اور مسلسل ہوٹنگ کی جا رہی تھی۔چند من چلے فضائیہ کے سائن بورڈ پکڑے چیخ رہے تھے۔ کچھ شوخ مزاج لڑکیاں بھی برابر نعرہ بازی کر رہی تھیں۔
رمضان سے پہلے یہ ان کا آخری میچ تھا۔ اسی لحاظ سے یہ میچ عبد اور جازم کیلئے بہت اہمیت کا حامل تھا۔
جب وہ اپنی ٹیم کو بریفنگ دے رہا تھا‘اسی پل ایک کیڈٹ نے اس کے کان میں آکر سرگوشی کی۔
”سر! کوئی رمشا اکرام ہیں۔ پارکنگ میں اپنی گاڑی کے پاس کھڑی ہیں۔ انہوں نے یہ موبائل فون دیا ہے کہہ رہی ہیں کہ ابھی ان سے بات کریں۔“
”کیا؟“ عبد کے گویا ہر طرف آگ لگ گئی تھی۔ وہ یکدم لب بھینچ کر گویا دہاڑا اور ننھا سا اسٹائلش موبائل اس نے دیوار سے دے رہا تھا۔
تب ہی ثوب اس کے قریب چلا آیا۔
”موڈ ٹھیک کرکے گراؤنڈ میں جایئے گا… ورنہ نتیجہ پچھلے میچ جیسا ہی ہوگا۔“
”تمہاری کسر باقی رہ گئی تھی۔ تم بھی آکر دل جلا لو۔“ عبد غصے میں سیڑھیاں اتر گیا۔ اس کی پوری ٹیم پہلے سے ہی میدان میں موجود تھی۔
اگرچہ وہ سخت بیزار اور بدل دل ہو چکا تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر صرف تیس منٹ کے دوران اس نے تین گول کر لئے تھے جبکہ جازم صرف ایک دفعہ گیند کو فلیگ پوسٹ کی طرف لے جا پایا تھا مگر ایک کھلاڑی نے پھرتی سے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
اس میچ میں جازم نے بری طرح سے ناکامی کا منہ دیکھا تھا۔ لڑکیوں نے اس جیت کی خوشی میں ہنگامہ مچا دیا۔ آج کا میچ اس لحاظ سے بھی خصوصیت کا حامل تھا کہ اس میچ کو دیکھنے ان کے سینئر کمانڈر‘اسکوارڈن لیڈر اظفر اور ونگ کمانڈر عادل کے ساتھ ساتھ ایئر کموڈور نجم بھی شریک ہوئے تھے۔
######
وہ اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست کو خط لکھ رہا تھا۔
علی سے اس کی بہت پرانی جان پہچان تھی۔ ان دنوں علی سعودیہ میں مقیم تھا۔ ان کی ٹیلی فونک گفتگو نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو لمبے لمبے خط لکھنے کے مرض میں مبتلا تھے‘خصوصاً علی تو بہت ہی تفصیل کے ساتھ آٹھ دس صفحات کا خط لکھتا تھا۔ حتیٰ کہ اپنا کھایا پیا تک بتاتا۔ وہ اس کے خط کی ایک ایک چیز کو بہت غور سے پڑھتا تھا۔ خط کے اختتام پر یہ چار لفظ تو ضرور لکھے جاتے۔

”تمہارے لئے بطور تحفہ اپنے پڑوسی فلاں بن فلاں کی ایک مرغی چرا کر لے آؤں گا… پورا سال اس کا گوشت کھانا… پھر بھی چار پانچ بوٹیاں بچ جائیں گی۔“ وہ علی کو خط کے جواب میں لکھ رہا تھا۔
میرے پیارے اور بے حد موٹے علی
ان دنوں تمہاری یاد بے حد بے قرار کئے رکھتی ہے۔ ہر موٹے آفیسر کو دیکھ کر تم یاد آ جاتے ہو۔ میرا تو خیال تھا‘سعودیہ جا کر تم کچھ پگھل جاؤ گے‘یعنی تمہارے وجود کی کچھ چربی کم ہو جائے گی‘مگر میری یہ خام خیالی ہی رہی۔
ظاہر ہے‘پڑوسی کی مرغیوں پر جو نظر ہے اور مجھے لگتا ہے کہ بے چاری مرغیاں تمہارے عتاب سے بچ بھی نہیں پاتی ہوں گی۔ 

3. تم میرے ہو


تمہاری جنگجو طبیعت کے بھلا کیا کہنے… وہاں بھی اپنی ”اوقات“ دکھانے سے باز نہیں آئے۔ یہ ہاتھا پائی‘یہ مارکٹائی… پنجابی فلمیں… زیادہ مت دیکھا کرو۔ کسی دن ”وحشی ڈوگر“ کے روپ میں سامنے آ جاؤ گے۔
اور ہاں تمہیں خالہ اور ماما بہت یاد کرتی ہیں۔
ہمارے لئے چوری شدہ مرغیاں لانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں بھی ”فارمی ککڑیوں“ کا بزنس بہت اچھا چل رہا ہے۔ اگر کچھ لانا چاہتے ہو تو خالہ کیلئے عقیق اور اصلی زعفران لانا۔ ماما کیلئے ویلوٹ کی جائے نماز اور مونا‘مینا کیلئے تسبیح اور کھجوریں۔ عناس لالہ کیلئے اصلی کھجوری ٹوپی‘ثوب کیلئے پورے ہزار شمارے والی لمبی سی تسبیح… جبکہ میرے لئے ان چیزوں میں سے تو کچھ بھی نہیں رہ گیا‘سو ایک جاپانی میوزک سسٹم ضرور لے آنا اور جو تم نے پیانو لانے کا وعدہ کر رکھا تھا‘وہ بھی ابھی تک پورا نہیں کیا۔
بس فرمائشوں کی لسٹ بنوا لیتے ہو۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘آج تک تم نے ایک بھی فرمائش پوری نہیں کی۔“
وہ بڑے خوشگوار موڈ میں خط لکھنے میں مگن تھا۔ علی بہت عرصہ تک اس کا پڑوسی بھی رہا تھا۔ اس کے والدین حیات نہیں تھے اور کوئی بہن بھائی بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی نانی کے ساتھ رہتا تھا۔ نانی کا انتقال ہو گیا تو وہ اپنے ماموں کے پاس سعودیہ چلا گیا۔
ماموں بے اولاد تھے۔ سو یہ ان کے ساتھ رہنے لگا۔
عبد کے پاس اس وقت علی کے کوئی ڈیڑھ سو کے قریب خط محفوظ تھے۔ جب کبھی وہ ذرا بوریت محسوس کرنے لگتا تھا‘علی کے خطوط کا خزانہ نکال کر بیٹھ جاتا اور پھر مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے چپک کر رہ جاتی تھی‘مگر اس موبائل فون کو گویا عبد کے ہونٹوں کی مسکان سے بیر ہو چلا تھا۔ تب ہی تو پرسکون ماحول میں ایسا بے ہنگم ارتعاش پیدا ہوا تھا کہ عبد کی ساری توجہ اور محویت ایک چھناکے سے ٹوٹ گئی۔
اس نے قلم ہاتھ میں پکڑے پکڑے موبائل اٹھا کر کان سے لگا لیا۔
”فلائٹ لیفٹیننٹ عبد جرار سے بات کروا دیں۔“ وہی کھنکتی آواز اور شگفتہ لہجہ۔ عبد نے اک گہری سانس بھری اور دھیمی آواز میں بولا۔
”فرمایئے۔“
”ہم نے کیا فرمانا ہے… فرماتے تو آپ ہیں۔ ایسا تلخ مزاج… اللہ کی پناہ…“اس نے گویا موبائل چھوڑ کر کانوں کو ہاتھ لگائے تھے۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا۔  

   23
10 Comments

Shaqeel

26-Dec-2021 05:01 PM

Good

Reply

prashant pandey

15-Sep-2021 12:37 AM

👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Rakhi mishra

08-Sep-2021 11:18 PM

💜💜💜💜

Reply